بہت شدت سے جو قائم ہوا تھا

بہت شدت سے جو قائم ہوا تھا
وہ رشتہ ہم میں شاید جھوٹ کا تھا



  
محبت نے اکیلا کر دیا ہے
میں اپنی ذات میں اک قافلہ تھا
مری آنکھوں میں بارش کی گھٹن تھی
تمہارے پاوں بادل چومتا تھا
کھجوروں کے درختوں سے بھی اونچا
مرے دل میں تمہارا مرتبہ تھا
محبت اس لیے بھی کی گئی تھی
ہمارا شعر کہنا مسئلہ تھا
مجھے اک پھول نے سمجھائی دنیا
جو میرے سبز باغوں میں کھلا تھا
ظہورِ آدم و حوا سے پہلے
ہمارے واسطے سب کچھ نیا تھا
زمیں پر جب زمینی مسئلے تھے
تو بارش بھی مکمل واقعہ تھا
قدم اٹھنے میں کتنی برکتیں تھیں
اور ان ہاتھوں میں کیسا ذائقہ تھا
ندیم بھابھہ

Comments