کوئی ہجر میرے وصال سے ہے بندھا ہوا

کوئی ہجر میرے وصال سے ہے بندھا ہوا
کہ یہ سلسلہ مہ و سال سے ہے بندھا ہوا
تیرا کل بھی ہو گا میری وفاؤں کی قید میں
تیرا ماضی بھی میرے حال سے ہے بندھا ہوا

میری جیت بھی کسی ہار سے ہے جُڑی ہوئی
سو عرُوج میرا زوال سے ہے بندھا ہوا
تیرے خدوخال کی نزاکتوں سے خبر ہوئی
کہ تُو آپ اپنی مثال سے ہے بندھا ہوا
میرا دل بھی ہے تیری چاہتوں کے حصار میں
میرا عشق بھی تیری شال سے ہے بندھا ہوا
وہ غرُور کرتی ہے کتنا اپنے جمال پر
کہ شکاری اپنے ہی جال سے ہے بندھا ہوا
مجھے بے سبب تو پکارتی نہیں نیند میں
تیرا خواب میرے خیال سے ہے بندھا ہوا

اعجاز توکل

Comments