مثنوی مرزا غالب


مثنوی

ایک دن مثل پتنگ کاغذی
لے کے دل سر رشتہ آزادگی
خود بخود کچھ ہم سے کنیانے لگا
اس قدر بگڑا کہ سر کھانے گا
میں نے کہا اے دل، ہوائے دلبراں
بس کہ تیرے حق میں کہتی ہے زباں
پیچ میں ان کے نہ آنا زینہار
یہ نہیں ہیں گے کسو کے یار غار
گورے پنڈے پر، نہ کر، ان کے نظر
کھینچ لیتے ہیں یہ ڈورے ڈال کر
اب تو مل جائے گی تیری ان سے سانٹھ
لیکن آخر کو پڑے گی ایسی گانٹھ
سخت مشکل ہو گا سلجھانا تجھے
قہر ہے دل ان سے الجھانا تجھے
یہ جو محفل میں بڑھاتے ہیں تجھے
بھول مت اس پر اڑاتے ہیں تجھے
ایک دن تجھ کو لڑا دیں گے کہیں
مفت میں نا حق کٹا دیں گے کہیں
دل نے سن کر، کانپ کر، کھا پیچ و تاب
غوطے میں جا کر دیا، کٹ کر جواب

"رشتہ در گردنم افگندہ دوست
می برد ہر جا کہ خاطر خواہ اوست"
مرزا غالب

Comments