جب تصور میں کوئی چاند سا چہرہ اترا

جب تصور میں کوئی چاند سا چہرہ اترا

دل کے آنگن میں محبت کا اجالا اترا

حیف صد حیف، مری عمر کا دریا اترا

سرے سے لیکن نہیں بارِ غمِ دنیا اترا

دل میں یوں شدتِ احساس کا نیزہ اترا

زخم کی تہ نہ ملی لاکھ میں گہرا اترا

خاک دنیا کے خداؤں نے اڑا دی میری

اے خدا بن کے میں نائب ترا اچھا اترا

میرے معیار کو سمجھا نہ کوئی دور کبھی

میں تو ہر دور کے معیار پہ پورا اترا

قتل ہونے کا نہیں غم مجھے صدمہ یہ ہے

میرے سینے میں مرے بھائی کا نیزہ اترا

داستاں سوزِ تمنا کی سنا دوں لیکن!

کون دیکھے گا اگر آپ کا چہرہ اترا

خود مجھے نہ ملا نازؔ کوئی اس کا سراغ

وہ مری روح کی گہرائی میں ایسا اترا

ناز خیالوی

Comments