مجھ میں لفظوں کو برتنے کا سلیقہ ہی نہیں ہے شاید

میں نے کچھ اور کہا آپ سے اور آپ نے کچھ اور سنا
مجھ میں لفظوں کو برتنے کا سلیقہ ہی نہیں ہے شاید

جب بھی ملئے وہی شکوے وہی ماتھے پہ شکن رہتی ہے
آپ سے کوئی ملے آپ کا منشا ہی نہیں ہے شاید

میں نے تو پرسشِ احوال بھی کی اور مخاطب بھی ہوا
حسنِ اخلاق مگر آپ کا شیوہ ہی نہیں ہے شاید

بات اب منزلِ تشہیر تک آ پہنچی جستہ جستہ
اب بجز ترکِ تعلق کوئی رستہ ہی نہیں ہے شاید

آپ کچھ بھی کہیں ناقابلِ تردید حقیقت ہے یہ
آپ کو میری صداقت پر بھروسہ ہی نہیں ہے شاید

اب وہ احباب نہ ماحول نہ آداب نہ پرسش نہ سلام
اب تو محفل میں کوئی اپنا شناسا ہی نہیں ہے شاید



حاکم شہر پہ تنقید کا اقبالؔ نتیجہ معلوم
اور وہ یہ کہ تمھیں شہر میں رہنا ہی نہیں ہے شاید
پروفیسر اقبال عظیم

Comments