تمام دفتر حکمت الٹ گیا ہوں میں

تمام دفتر حکمت الٹ گیا ہوں میں

مگر کھلا نہیں اب تک کہاں ہوں، کیا ہوں میں

کبھی سنا کہ حقیقت ہے میری لاہوتی

کہیں یہ ضد کہ ہیولائے ارتقا ہوں میں

یہ مجھ سے پوچھئے، کیا جستجو میں لذّت ہے

فضائے دہر میں تبدیل ہو گیا ہوں میں

ہٹا کے شیشہ و ساغر ہجوم مستی میں

تمام عرصۂ عالم پہ چھا گیا ہوں میں

اڑا ہوں جب، تو فلک پر لیا ہے دم جا کر

زمیں کو توڑ گیا ہوں، جو رہ گیا ہوں میں

رہی ہے خاک کے ذرّوں میں بھی چمک میری

کبھی کبھی تو ستاروں میں مل گیا ہوں میں

کبھی خیال، کہ ہے خواب عالم ہستی!

ضمیر میں ابھی فطرت کے سو رہا ہوں میں

کبھی یہ فخر کہ، عالم بھی عکس ہے میرا

خود اپنا طرز نظر ہے کہ، دیکھتا ہوں میں

کچھ انتہا نہیں نیرنگ زیست کے میرے

حیات محض ہوں، پروردۂ فنا ہوں میں

حیات و موت بھی ادنیٰ سی اک کڑی میری

ازل سے لے کے ابد تک وہ سلسلہ ہوں میں

کہاں ہے ؟ سامنے آ مشعل یقیں لے کر

فریب خوردۂ عقل گریز پا ہوں میں

نوائے راز کا سینے میں خون ہوتا ہے

ستم ہے لفظ پرستوں میں گھر گیا ہوں میں

سما گئے مری نظروں میں، چھا گئے دل پر!

خیال کرتا ہوں ان کو، کہ دیکھتا ہوں میں

نہ کوئی نام ہے میرا، نہ کوئی صورت ہے

کچھ اس طرح ہمہ تن دید ہو گیا ہوں میں

نہ کامیاب ہوا میں، نہ رہ گیا محروم

بڑا غضب ہے کہ، منزل پہ کھو گیا ہوں میں

جہان ہے کہ نہیں، جسم و جاں بھی ہیں کہ نہیں

وہ دیکھتا ہے مجھے، اس کو دیکھتا ہوں میں

ترا جمال ہے، تیرا خیال ہے، تو ہے !

مجھے یہ فرصت کاوش کہاں کہ، کیا ہوں میں

اصغر گونڈوی

Comments