پھر مساوات و اخوت کے پیمبر جاگے

پھر مساوات و اخوت کے پیمبر جاگے

مفلسی! جشن منا، تیرے مقدر جاگے

پڑ گئیں وقت کے خیبر میں دراڑیں کیا کیا

یا علیؓ کہہ کے جونہی مست قلندر جاگے

بدعتِ مایہ پرستی کو مٹا سکتے ہیں

دل میں گر جذبۂ سلمان و ابو ذر جاگے

خاک کے درد میں افلاک بھی ہوتے ہیں شریک

چاند تارے بھی مرے ساتھ برابر جاگے

پاسباں ایک سرِ عرشِ علیٰ ہے میرا

اک محافظ مرا جو مرے اندر جاگے

سیپیاں چننے میں مشغول میں کمسن کیا کیا

اور کچھ دیر نہ یا رب یہ سمندر جاگے

موند لے سامنے خطرے کے جو نازؔ آنکھوں کو

ایک ہی بات ہے سوئے کہ کبوتر جاگے
ناز خیالوی

Comments