میں تمہارے عکس کی آرزو میں بس آئینہ ہی بنی رہی

میں تمہارے عکس کی آرزو میں بس آئینہ ہی بنی رہی
کبھی تم نہ سامنے آ سکے،کبھی مجھ پہ گرد پڑی رہی



وہ عجیب شام تھی،آج تک میرے دل میں اس کا ملال ہے
میری طرح جو تیری منتظر،تیرے راستے میں کھڑی رہی

کبھی وقف ہجر میں ہو گئی کبھی خواب وصل میں کھو گئی
میں  فقیر عشق  بنی  رہی،  میں  اسیر  یاد  ہوئی  رہی 

بڑی خامشی سے سرک کے پھر مرے دل کے گرد لپٹ گئی
وہ   ردائے  ابر  سپید   جو ،  سر  کوہسار   تنی   رہی

ہوئی اس سے جب میری بات بھی،تھی شریک درد وہ ذات بھی
تو  نہ جانے  کون سی  چیز کی میری  زندگی میں  کمی  رہی

ثمینہ راجا

Comments