ہم روکنے کو پاؤں پڑے جا رہے ہیں ، یار

ہم روکنے کو پاؤں پڑے جا رہے ہیں، یار!
لیکن ہمارے یار، لڑے جا رہے ہیں، یار!!

تم ان کو رو رہے ہو جو پت جھڑ میں جھڑ گئے
اور ہم جو سبز رت میں جھڑے جا رہے ہیں یار؟

وہ مسکرا کے دیکھ رہا ہے فلک سے، اور
ہم شرم سے زمیں میں گڑے جا رہے ہیں یار

افسوس! اک سنہری کلائی کے واسطے
لے کر پلاسٹک کے کڑے جا رہے ہیں یار



اک ربطِ رائگاں ہے یہ، تسلیم کر نہ لیں ؟
ہم کیوں فضول ضد پہ آڑے جا رہے ہیں یار؟

قسمت تو دیکھ! قیمتی پتھر ہیں ہم، مگر
لوگوں کی جوتیوں پہ جڑے جا رہے ہیں یار

اس کا سکچ بنانا ہے لیکن سب آرٹسٹ
گم سم ہیں، پنسلیں ہی گھڑے جا رہے ہیں یار

چھوٹا سا خاندان ہے اردو غزل کا، اور
ایک ایک کر کے سارے بڑے جا رہے ہیں یار

ہم زندگی کی حبس زدہ بس میں ہیں، عمیر!
اور ظلم دیکھ! ہو کے کھڑے جا رہے ہیں یار!

عمیر نجمی

Comments