بے حس نہ تھے کہ اتنے خساروں پہ ناچتے

بے حس نہ تھے کہ اتنے خساروں پہ ناچتے
کب تک ہوائے غم کے اشاروں پہ ناچتے
اک روز دل کو جھڑکا بہت ورنہ اہل عشق
درویش بن کے ہم بھی مزاروں پہ ناچتے
یہ رقص اندمال کی تھی شرط ، کی قبول
لازم تھا خاردار سی  تاروں پہ ناچتے
ہم پر لگاتے قہقہے منظر قریب کے
اور لوگ ہم سے بخت کے ہاروں پہ ناچتے
چپ چاپ روئے اور پھر اک سمت چل پڑے
پاگل تھے ہم ؟ جدائی کے نعروں پہ ناچتے
کومل شکم کی آگ وہ ظالم بلا ہے یار
یہ بھیڑیے  بھی بھوک کے ماروں پہ ناچتے
کومل جوئیہ

Comments