اگرچہ ساغر گل ہے تمام تر بے بود

اگرچہ ساغر گل ہے تمام تر بے بود

چھلک رہی ہے چمن میں مگر شراب وجود

جو لے اڑا مجھے مستانہ وار ذوق سجود

بتوں کی صف سے اٹھا نعرۂ انا المعبود

کہاں خرد ہے، کہاں ہے نظام کار اس کا

یہ پوچھتی ہے تری نرگس خمار آلود

یہی نگاہ جو چاہے وہ انقلاب کرے

لباس زہد کو جس نے کیا شراب آلود

شعاع مہر کی جولانیاں ہیں ذرّوں میں

حجاب حسن ہے آئینہ دار حسن وجود

اٹھا کے عرش کو رکھّا ہے فرش پر لا کر

شہود غیب ہوا، غیب ہو گیا ہے شہود

مذاق سیر و نظر کو کچھ اور وسعت دے

کہ ذرّے ذرّے میں ہے اک جہان نا مشہود

نیاز سجدہ کو شائستہ و مکمّل کر

جہاں نے یوں تو بنائے ہزارہا معبود
اصغر گونڈوی

Comments