یوں نہ پندار کی دیوار اٹھا کر ڈھونڈو

یوں نہ پندار کی دیوار اٹھا کر ڈھونڈو
مل بھی سکتا ہوں اگر خود کو ہٹا کر ڈھونڈو
تم نے قُربت کے شب و روز میں کھویا ہے مجھے
جاؤ اب ہجر کے ایّام میں جا کر ڈھونڈو
عاجزی سے کوئی دیکھے تو چمک اٹھتا ہوں
بھول کر بھی نہ مجھے ناز دکھا کر ڈھونڈو
سامنے پا کے نہ سمجھو کہ مجھے ڈھونڈ لیا
ایک بار اور مرے قُرب میں آ کر ڈھونڈو
ایسا کھویا ہوں ، جھلک تک نہیں ملتی اپنی
دوستو مجھ کو مرا عکس دکھا کر ڈھونڈو
ایسی تاریک خموشی میں ملے گا کیسے
اس کو آواز کی قندیل جلا کر ڈھونڈو
کھو کے پانے کا ارادہ ہے تو جلدی نہ کرو
یہ نہ ہو پا کے مجھے پھر سے گنوا کر ڈھونڈو
تکنے والو تکے جاتے ہو فلک کی جانب
ڈھونڈنا ہے تو مجھے خاک پہ آکر ڈھونڈو
یہ مری ذات کا جنگل ہے،نہ خود کھو جانا
تم مجھے ڈھونڈتی ہو، خود کو بچا کر ڈھونڈو
میں محبت میں غلامی کو نہیں مانتا ہوں
یہ بھی کیا،پیار کے بازار میں چاکر ڈھونڈو
دور سے ڈھونڈتے رہتے تو میں مل بھی جاتا
کس نے بولا تھا مجھے پاس بلا کر ڈھونڈو
گھاس کے ڈھیر میں سوئی نہیں ملتی نیر
عمر بھر اب اسے ہاتھوں سے گرا کر ڈھونڈو

شہزاد نیئر

Comments