آدمیت کی لاش پر تنہا

آدمیت کی لاش پر تنہا

میں ہوں برسوں سے نوحہ گر تنہا

خود نمائی کی وہ وباء پھیلی

پھر رہا ہے بشر بشر تنہا

سازشیں ناخدا بھی کرتے ہیں

یونہی بدنام ہے بھنور تنہا

سب نے مل کر شجر کو سینچا ہے

کیوں کوئی کھائے گا ثمر تنہا

اجڑے دل میں گئے دنوں کی یاد!

جیسے جنگل میں گوئی گھر تنہا

میں نے کھائے ہیں یاس کے پتھر

آرزوؤں کے موڑ پر تنہا

جنگ لڑتا رہا رعونت سے

میں وفا کا پیامبر تنہا

اے غمِ دوستی نہ چھوڑ مجھے

اس طرح سے نہ مجھ کو کر تنہا

کوئی پروانہ اب نہیں آتا

شمع جلتی ہے رات بھر تنہا

ناز اہلِ وفا کا ہے فقدان

کیسے کاٹو گے یہ سفر تنہا

ناز خیالوی

Comments