کام کچھ بھی نہیں تھا کرنے کو

کام کچھ بھی نہیں تھا کرنے کو
ہم کو بھیجا گیا ہے مرنے کو

تم جو سمٹے ہوئے سے رہتے ہو
یعنی بیتاب ہو بکھرنے کو

نہ وہ حکم_سفر ہی دیتا ہے
نہ مجھے کہتا ہے ٹھہرنے کو

میں نے بھی عشق یوں قبول کیا
ایک الزام سر پہ دھرنے کو

آئنہ دیکھتے نہیں بنتا
اور کہتے ہو تم سنورنے کو

'کاسہ_آرزو نہیں بھرتا
کاسہ_آگہی ہے بھرنے کو

میری سوچوں میں شعر کی بابت
شکل سی ہے کوئ ابھرنے کو

مہندر کمار ثانی

Comments