نسیم ہوتی ہوئی آئی ہے مدینے سے

نسیم ہوتی ہوئی آئی ہے مدینے سے
چمک رہے ہیں گل روح پر نگینے سے
ابھر رہی ہے سکوت حرا سے اک آواز
اتر رہی ہے سحر قصرِ شب کے سینے سے
تیری نگاہ تو ہو میری روح پر اک دن
نظر تو آتے ہیں جنگل میں کچھ دفینے سے
کسی سبب سے ہی خورشید لوٹ کر آیا
وہ حکم خاص تھااور خاص ہی قرینے سے
میرے ستارے کو طیبہ سے کچھ اشارہ ہوا
سو بادباں سے غرض ہے نا اب سفینے سے
سنا ہے جب سے شفاعت کو آپ آئیں گے
تو جیسے بوجھ سا اک ہٹ گیا ہے سینے سے
مدینہ ہے تو نجف بھی ہے کربلا بھی ہے
تما م لعل و گہر ہیں اسی خزینے سے
پروین شاکر

Comments