کتنے چھوٹے سے گھر میں رہتے ہیں

کتنے چھوٹے سے گھر میں رہتے ہیں
مصطفیٰ چشمِ تر میں رہتے  ہیں
تخت جن کا ہے عرش اعظم پر
وہ حلیمہ کے گھر میں رہتے ہیں
مومنوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں
مصطفیٰ ہر بشر میں رہتے ہیں
بلبلیں گلشنِ مدینہ کے
رحمتوں کے مطر میں رہتے ہیں
کیا نصیبہ ہے دونوں حضرت کا
ان کے پہلو میں در میں رہتے ہیں
نعتِ سرکار خود محافظ ہے
نعت خواں تو سپر میں رہتے ہیں۔
دل گلستاں ہوا درودوں سے
شاخ میرے ثمر میں رہتے ہیں
ان کی نظروں سے کون اوجھل ہے
غیب ان کی نظر میں رہتے  ہیں۔
نعت سے زندگی سنورتی ہے
نعت خواں پاک گھر میں رہتے ہیں
ہم نے دل کا مکان بیچ دیا
اب تو مالک ہی گھر میں رہتے ہیں
آفتاؔب و قمر کو دیکھا ہے
ان کے گردِ سفر میں رہتے ہیں
محمد آفتاب عالم رضوی

Comments