مشکل میں یا پھر آسانی میں رکھو گے

مشکل میں یا پھر آسانی میں رکھو گے
بے گھر کو کیا بے سامانی میں رکھو گے

یادیں مردہ خانوں میں رکھوا کر آؤ
"کتنی برف میں کتنے پانی میں رکھو گے"

خواہش بوؤ گے میرے پاگل سینے میں
یعنی کشتی کو طغیانی میں رکھو گے

خواب بھی مچھلی جیسے پاکیزہ ہوتے ہیں
امر ہیں جب تک آنکھ کے پانی میں رکھو گے

مٹی میں رکھو گے پوشاکیں پہنا کر
جیتے جی مجھ کو عریانی میں رکھو گے

اُس لمحے تم کو حیرانی میں دیکھوں گا
جس پل تم مجھ کو حیرانی میں رکھو گے

اسود ہوں پر مجھ کو چاند سمجھ لینا تم
اُگ آؤں گا جب پیشانی میں رکھو گے
بلال اسود

Comments

Post a Comment