بات کرتے ہوئے بے خیالی میں زلفیں کھلی چھوڑ دیں

بات کرتے ہوئے بے خیالی میں زلفیں کھلی چھوڑ دیں
ہم نہتوں پہ آج اس نے کیسی بلائیں کھلی چھوڑ دیں
پاس جب تک رہے ایک لمحے کو بھی ربط ٹوٹا نہیں
اٌس نے آنکھیں اگر بند  کر لیں تو بانہیں کھلی چھوڑ دیں
کیا انوکھا یقیں تھا جو اٌس دن اتارا گیا شہر پر
گھر پلٹتے ہوئے تاجروں نے دکانیں کھلی چھوڑ دیں
جس نے آتے ہوئے میری ترتیب پر اتنے جملے کسے
اٌس نے جاتے ہوئے میرے دل کی درازیں کھلی چھوڑ دیں
میرے قابو میں ہو کر بھی وہ اتنا سرکش ہے تو سوچیے
کیا بنے گا اگر میں نے اٌس کی لگامیں کھلی چھوڑ دیں
خرم آفاق

Comments