ہم اپنی ماؤں کی نوجوانی کو کھا گئے تو بڑے ہوئے ہیں

طفیلیے ہیں، ہمارے جسموں کو چاٹ کر ہی بڑے ہوئے ہیں
ہماری سرسبزگی کے قاتل یہ پارسا جو کھڑے ہوئے ہیں
مکیں مکانوں کی زینتوں کو فروغ دینے میں گم ہیں جب سے
انہیں دنوں سے گھروں کے ماتھوں پہ نیلے دھبے پڑے ہوئے ہیں
وجاہتیں جو جھلک رہی ہیں یہ خال و خد سے تو قصہ یوں ہے
ہم اپنی ماؤں کی نوجوانی کو کھا گئے تو بڑے ہوئے ہیں
تم اپنی چھاؤں کا رونا رونے سے فرصتیں جب کشید کر لو
تو ان درختوں کے دکھ سمجھنا وہ جن کے پتے جھڑے ہوئے ہیں
میں آستیں کو بھی آستانے سے کم سمجھتی نہیں ہوں پیارے
مری جبیں کی جو زینتیں تھے وہ تارے ان میں جڑے ہوئے ہیں
یہ کھردرا پن بھی زندگی کی کٹھن مسافت کی دین سمجھو
ہم اپنے اندر کے نفسیاتی مریض تک سے لڑے ہوئے ہیں
جوان خوابوں کی گردنیں اور معتبر پگڑیوں کے پھندے
گھٹن نہ پوچھو ہماری آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہوئے ہیں
ہمیں سہولت سے درد سہنے کی لت لگائ گئی مقدس
ہم ایسے انگور کے ہیں خوشے جو کیکروں پر چڑھے ہوئے ہیں
مقدس ملک

Comments