ہٹ گئے چشم تصور سے گماں کے پردے

ہٹ گئے چشمِ تصور سے گماں کے پردے
آکے تصویر میں اب رنگِ تعلق بھر دے
اُس سے ملنا تو اُسے عید مبارک کہنا
یہ بھی کہنا کہ مری عید مبارک کر دے
جانے رعنائی مجھے رنگ دکھائے کیسا
جانے بینائی مری آنکھ کو کیا منظر دے
یہ سمندر کا علاقہ ہے سو مرضی اُس کی
جس پہ موتی کی عنایت ہو جسے پتھر دے
کب تلک میں تری سوچوں کے تسلسل میں رہوں
اب مجھے چاک پہ رکھ اور کوئی پیکر دے
اے محبت تری سختی نہیں جھیلی جاتی
کچھ رعایت تو مجھے ٹوٹے ہوئے دل پر دے
سب زر و مال کے شیدائی نظر آتے ہیں
کون دُنیا کو رعونت سے بھری ٹھوکر دے
یہ بھی ممکن ہے میں آزار بدل لوں آزر
یہ بھی ممکن ہے محبت مجھے پاگل کر دے
دلاورعلی آزر

Comments