عشق کے غار سے نکل آیا

عشق کے غار سے نکل آیا
کارِ بےکار سے نکل آیا

ٹھان بیٹھا تھا ترک الفت کی
کام پھر یار سے نکل آیا

میں نے آنسو چھپائے مٹی میں
شور دیوار سے نکل آیا

لمحہ وصل کی خبرسن کر
ہجر آزار سے نکل آیا

اس نے آگے بڑھایا ہونٹوں کو
پانی خود جار سے نکل آیا

اتنی خبریں تھیں قتل و غارت کی
خون اخبار سے نکل آیا

ہم تو چھاؤں سمجھ کے بیٹھے تھے
سانپ اشجار سے نکل آیا

امجد نذیر

Comments