وجد کرتی اک دعا کچے مکانوں سے اٹھی

وجد کرتی اک دُعا کچے مکانوں سے اٹھی
روشنی تسبیح کے رنگین دانوں سے اٹھی
کب نمُودِ جلوہءشہ بس تریسٹھ سال ہیں
آیہءرحمت کی ضو سارے زمانوں سے اٹھی
سرخ آفت سے مُزّین تختہءگُل کی سحر
شب کو نارنجی قیامت شمع دانوں سے اٹھی
سبزہ و گُل سب اچانک نیلگوں ہونے لگے
یک بہ یک جب زرد ماٹی آسمانوں سے اٹھی
لاد لانے کے لئے سر سبز انگُوروں کا رس
حکم آتے ہی مگس چھتے کے خانوں سے اٹھی
میں سخن رّبِ اٙحد کے فضل سے کرنے لگا
استعاروں کی چمک میرے خزانوں سے اٹھی
گھنٹیاں، ناقُوس، تاشے سب گلاب صُبح ہیں
پر سحر خیزی کی خوشبو بس اذانوں سے اٹھی
احمد جہانگیر

Comments