خیال کوئے پیمبر ہے اور مرا گھر ہے

خیال کوئے پیمبر  ہے اور مرا گھر ہے
طلوعِ بیتِ مطّہٙر ہے اور مرا گھر ہے
لبِ صدا وہی ڈیوڑھی ہے اور مرا کاسہ
سرِ سوال وہی گھر ہے اور مرا گھر ہے
میں کتنی آنکھوں سے دیکھوں قطارِ ناقہُ نور
درِ رسول ص کا منظر ہے اور مرا گھر ہے
صدائے شہپرِ جبریلؑ ہے سماعت میں
سرودِ کلمہُ داور ہے اور مرا گھر ہے
جنابِ سرورِؐ کون و مکاں ص پہ دیکھتا ہوں
ہجومِ حلقہُ بے سر ہے اور مرا گھر ہے
زہِ نصیب کہ فردوسِ بے تمنا میں
مکانِ شافعِ محشر ص ہے اور مرا گھر ہے
امید و بیمِ مودّت سنبھال چھت میری
یہ دور سیلِ فنا پر ہے اور مرا گھر ہے
وہ ایک در جو کھلے مسجدِ نبی ص میں کمیل
اُس ایک در سے مقدر ہے اور مرا گھر ہے
کمیل شفیق رضوی

Comments