پیش خیمہ یہ کسی ایک مصیبت کا نہیں

پیش خیمہ یہ کسی ایک مصیبت کا نہیں 
دکھ ہے کچھ اور مری جان مسافت کا نہیں 
ہم مضافات سے آئے ہوئے لوگوں کا میاں 
مسئلہ رزق کا ہوتا ہے محبت کا نہیں 



 جسم کی جیت کوئی جیت نہیں میرے لیے 
یہ وہ سامان ہے جو میری ضرورت کا نہیں 
تھوڑی کوشش سے ہی آ جاتی ہے اب نیند مجھے 
اس کا مطلب ہے کہ وہ میری طبیعت کا نہیں 
یہ تو خود چل کے نشانے پہ لگے ہیں تیرے 
دخل اس میں تو کوئی تیری مہارت کا نہیں 
روز دریا میں جو اک پھول بہا دیتا ہوں 
یہ کسی دکھ کا اشارہ ہے عقیدت کا نہیں 
ہم ہیں ہارے ہوئے لشکر کے سپاہی ساحرؔ 
فائدہ ہم کو کسی کی بھی حمایت کا نہیں
جہانزیب ساحر

Comments