دیار غیر میں کیسے تجھے صدا دیتے

دیار غیر میں کیسے تجھے صدا دیتے
تو مل بھی جاتا تو آخر تجھے گنوا دیتے
تمہی نے ہم کو سنایا نہ اپنا دکھ ورنہ
دعا وہ کرتے کہ ہم آسماں ہلا دیتے
ہمیں زعم رہا کہ اب وہ پکاریں گے
انہیں یہ ضد تھی کہ ہر بار ہم صدا دیں گے
وہ تیرا غم تھا کہ تاثیر میرے لہجے کی
کہ جس کو حال سناتے وہ رلا دیتے
تمہیں بھلانا ہی اول تو دسترس میں نہیں
جو اختیار بھی ہوتا تو کیا بھلا دیتے
تمہاری یاد میں کوئی جواب ہی نہ دیا
میرے خیال ہی آنسو رہے صدا دے کر
ہم اپنے بچوں سے کیسے کہیں کہ یہ گڑیا
ہمارے بس میں جو ہوتی تو دلا دیتے
سماعتوں کو میں تا عمر کوستا سیدؔ
وہ کچھ نہ کہتے ہونٹ تو ہلا دیتے
وصی شاہ

Comments