ہر روز امتحاں سے گزارا تو میں گیا

ہر روز امتحاں سے گزارا تو میں گیا
تیرا تو کچھ نہیں گیا مارا تو میں گیا
جب تک میں تیرے پاس تھا بس تیرے پاس تھا
تو نے مجھے زمیں پہ اتارا تو میں گیا
یہ طاق یہ چراغ مرے کام کے نہیں
آیا نہیں نظر وہ دوبارہ تو میں گیا
شل انگلیوں سے تھام رکھا ہے چٹان کو
چھوٹا جو ہاتھ سے یہ کنارا تو میں گیا
اپنی انا کی آہنی زنجیر توڑ کر
دشمن نے بھی مدد کو پکارا تو میں گیا
تیری شکست اصل میں میری شکست ہے
تو مجھ سے ایک بار بھی ہارا تو میں گیا
سعود عثمانی

Comments