لب بستہ قضا آئی تھی دم بستہ کھڑی ہے

لب بستہ قضا آئی تھی، دَم بستہ کھڑی ہے
کونین کے والی ترے آنے کی گھڑی ہے

اک ُطرفہ نظارہ ہے ترے شہر میں آقا
بخشش ہے کہ چپ چاپ ترے در پہ پڑی ہے

ہاتھوں میں لئے پھرتا ہوں لغزش کی لکیریں
تقدیر مگر تیری شفاعت سے ُجڑی ہے

چہرہ ہے کہ ہے نور کے پردوں میں نہاں نور
زُلفیں ہیں کہ رنگوں کی ضیا بار جھڑی ہے

لا ریب سبھی ہادی و ُمرسَل ہیں چنیدہ
واللہ تری آن بڑی، شان بڑی ہے

مقصودؔ تصور میں مدینے کے رہا کر
کٹ جائے گی یہ ہجر کی شب، گرچہ کڑی ہے
سید مقصود علی شاہ

Comments