ملا جو کام غم معتبر بنانے کا

ملا جو کام غم معتبر بنانے کا
ہنر اس آنکھ کو آیا نہ گھر بنانے کا
تجھی سے خواب ہیں میرے تجھی سے بیداری
تجھے سلیقہ ہے شام و سحر بنانے کا
میں اپنے پیچھے ستاروں کو چھوڑ آیا ہوں
مجھے دماغ نہیں ہم سفر بنانے کا
یہ میرے ہاتھوں میں پتھر ہیں اور رات ہے سرد
میں کام لیتا ہوں ان سے شرر بنانے کا
سرائے میں کوئی اک شب رکے تو بات ہے اور
مگر سوال ہے دنیا کو گھر بنانے کا
مکاں کے نقشے پہ دیوار لکھ دیا کس نے
یہاں تو میرا ارادہ تھا در بنانے کا
یہ اور بات کہ منزل فریب تھا لیکن
ہنر وہ جانتا تھا ہم سفر بنانے کا
وہ لوگ کشتی و ساحل کی فکر کیا کرتے
جنہیں ہے حوصلہ دریا میں گھر بنانے کا
ہر ایک تخم کو رزق شکم پری نہ سمجھ
ہنر بھی سیکھ زمیں سے شجر بنانے کا
بہت طویل مری داستان غم تھی مگر
غزل سے کام لیا مختصر بنانے کا
سلیم احمد

Comments