نے انساں کے خیالوں میں لہو دوڑایا

تو جب آیا تو مٹی روح و بدن کی تفریق
تو نے انساں کے خیالوں میں لہو دوڑایا

سمٹ آیا ترے اک حرف صداقت میں وہ راز
فلسفوں نے جسے تاحدِ گماں الجھایا

راحتِ جاں ! ترے خورشیدِ محبت کا طلوع
دھوپ کے روپ میں ہے ابر کرم کا سایا

اپنے رفیقوں کے لئے پتھر بھی ڈھوئے آپ نے
اور دشمنوں کے حق میں مصروفِ دعا بھی آپ ہیں

ظلماتِ این و آں میں ہوں ، میں کب سے سرگرمِ سفر
اور اس سفر میں ، میری منزل کا پتہ بھی آپ ہیں
احمد ندیم قاسمی

Comments