پیڑ کی شاخ تو کھڑکی سے ابھی جھانکتی ہے

پیڑ کی شاخ تو کھڑکی سے ابھی جھانکتی ہے
دھوپ کس ڈر سے توجہ میں کمی مانگتی ہے
خواب اور نیند کی پابند نگہ داری میں
آنکھ ، دستور مطابق ہی تجھے جانتی ہے
مرنے والے! یہ ترے صبر کا صدقہ ہے مجھے
زندگی ، اب مرے حصے کا مجھے ڈانٹتی ہے
دن چڑھے، خواب ادھڑنے کی خبر ملتی تھی
اب تو اک گڑیا مری آنکھ میں دل ٹانکتی ہے
گندمی آگ! میں تجھے جسم بنا سکتا ہوں
اور تو اندر کسی جھرنے سے نمی چھانٹتی ہے
گاؤں اور ماؤں سے بچھڑے ہوئے رستوں کی طرف
کچے پن میں بھی مری نیند بہت بھاگتی ہے
علی زیرک

Comments