وقت اک دریا ہے دریا سب بہالے جائے گا

وقت اک دریا ہے، دریا سب بہالے جائے گا
ہم مگر تنکے ہیں، ہم تنکوں سے کیالے جائے گا

اک عجب آشوب ہے کیوں بستیوں میں جلوہ گر
کیا یہ ہر انسان سے خوفِ خدالے جائے گا

ہے تو خورشید حقیقت پر بڑا بے مہر ہے
دل سے جذبے آنکھ سے آنسو چرا لے جائے گا

بوریے پر بیٹھنے کالطف ہی کچھ اور ہے
شہر یارِ عصر اس تکیے سے کیا لے جائے گا

ہر گزر گاہِ تمنا پر بہت سی گرد ہے
لیکن اس کوایک ہی جھونکااڑالے جائے گا

عافیت کے دائروں میں یار سارے بند ہیں
کوئی موسم، کوئی طوفاں اس سے کیا لے جائے گا
اسعد بدایونی

Comments