رہتے ہیں بدن دھوپ سے دوچار ہمارے

رہتے ہیں بدن دھوپ سے دوچار ہمارے
کس رخ پہ بنے ہیں در و دیوار ہمارے
تم کو تو قبیلے کی حفاظت پہ رکھا تھا
اور تم کہ بنے بیٹھے ہو سردار ہمارے
اب ان گلی کوچوں کو تو جانے کے نہیں ہم
دل پیچھے پڑا ہے یونہی بے کار ہمارے
جلدی تھی بڑی شوقِ سفر! تیرا برا ہو
ساحل پہ پڑے رہ گئے پتوار ہمارے
منسوب ہیں کس عہد سے پہچان تو لو گے
مل جائیں جو تم کو کہیں آثار ہمارے
سمجھا دیے خود راستے دشمن کو وہاں کے
اپنے تھے جہاں برسرِ پیکار ہمارے
لیکن نہ گئی دل سے رہائی کی تمنا
پر کاٹے ہیں صیاد نے سو بار ہمارے
ہر لہر نئے رنگ میں ڈھال آتی ہے واجدؔ
پانی پہ لکھے جیسے تھے کردار ہمارے

واجد امیر

Comments