تجھ سے بچھڑ کر آنکھوں کو نم کس لیے کریں

تجھ سے بچھڑ کر آنکھوں کو نم کس لیے کریں
تجھ کو نہیں ملال تو ہم کس لیے کریں



 دنیا کی بے رُخی تو نہیں ہے کوئی جواز
اس شدتِ خلوص کو کم کس لیے کریں
تا عمر قربتوں کا تو امکان ہی ناں تھا
آنکھیں فراقِ یار کا غم کس لیے کریں
اپنا جنوں داد و ستائش سے بے نیاز
پھر بے خودی کا حال رقم کس لیے کریں
جن کے لیے افق پہ چمکتے ہیں راستے
مٹی پہ ثبت نقشِ قدم کس لیے کریں
مانوس ہو چکے ہیں اندھیروں سے اپنے لوگ
اب احتجاجِ صبحِ کرم کس لیے کریں
ساجدؔ کوئی نئی تو نہیں ہے یہ تیرگی
آخر ملالِ شامِ الم کس لیے کریں

اعتبار ساجد

Comments