جنت کی آرزو ہے نہ حوروں کی چاہ ہے

جنت کی آرزو ہے نہ حوروں کی چاہ ہے
محشر میں بھی تمہیں پہ ہماری نگاہ ہے
اب اُن سے دور دور کی کچھ رسم و راہ ہے
یہ دوستی نہیں ہے فقط اک نباہ ہے
صبحِ شبِ وصال ہے غصہ بھی شرم بھی
ترچھی نگاہ ہے کبھی نیچی نگاہ ہے
عاشق کی بے کسی کا تو عالم نہ پوچھیے
مجنوں پہ جو گذر گئی صحرا گواہ ہے
مظلوم بن کے آئے تو مجرم ٹھہر گئے
الٹے ہمیں سے حشر میں وہ داد خواہ ہے
توبہ خدا نخواستہ تم اور عشقِ غیر
میرا غلط گمان غلط اشتباہ ہے
واعظ اگر صراط کا کرنا تھا تذکرہ
یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ محبت کی راہ ہے
آتا ہے مجھ کو یاد بہت نامہ بر مرا
جب دیکھتا ہوں کوئی کبوتر تباہ ہے
ہم اپنی آن میں ہیں تو وہ اپنی شان میں
دو ضدیوں کے بیچ میں مشکل نباہ ہے
لو دل بھی کہہ رہا ہے اُنہیں کی سی حشر میں
خاصا یہ مدعی ہے کہ میرا گواہ ہے
میں نے کیا جو جرم کا اقرار حشر میں
رحمت پکار اٹھی یہ کوئی بے گناہ ہے
اے رہروانِ کوچۂ جاناں جواب دو
تم کو پکارتا کوئی گم کردہ راہ ہے
بُلوائیں وہ تو گھٹتی ہے شاں اُن کی اے حفیظ
جاتے ہیں خود تو وضع یہاں سدِ راہ ہے
حافظ محمد علی حفیظ جونپوری

Comments