انجام محبت اے توبہ آغاز محبت کیا کہیے

انجامِ محبت اے توبہ، آغازِ محبت کیا کہیے
کیوں چھیڑیے دل کے زخموں کو وہ اگلی حکایت کیا کہیے
وہ مہر و مروت کی نظریں، وہ لطف و عنایت کیا کہیے
اظہارِ وفا، اقرارِ وفا، وہ جوشِ رقابت کیا کہیے
چھُوٹے ہوئے ان سے رسمِ وفا گو ایک زمانہ بِیت گیا
خوب روتے ہیں ہم اب بھی اکثر، رنگیئ صحبت کیا کہیے
آزاد غمِ فرقت سے سوا کیا ہو گی بلائے روزِ جزا
ہم عشق کے ماروں کے آگے، رودادِ قیامت کیا کہیے
اُمڈی چلی آتی ہیں آہیں، دل ضبطِ فُغاں سے عاجز ہے
آمادۂ رخصت، پاسِ وفا، اب عالمِ وحشت کیا کہیے
جب ان کی جفا کا ان سے ہی ایک عمر گِلہ شِکوہ نہ کیا
اے خارؔ! تو پھر پیشِ داور، رُوئے شکایت کیا کہیے

خار دہلوی

Comments