ستارہ وار ترے غم میں جل بجھا ہوں میں

ستارہ وار ترے غم میں جل بجھا ہوں میں
یہ کس طرح کی اذیت میں مبتلا ہوں میں
میں آدھا جملۂ خوش کن تھا آدھا مصرعۂ تر
پر احتیاط سے "برتا" نہیں گیا ہوں میں

مرے وجود میں رکھی یہ روشنی کیا ہے
یہ کس چراغ کی مانند جل رہا ہوں میں
وہ اپنا عکس مری چشمِ تر میں دیکھتی تھی
تجھ آئینے سے بہت معتبر رہا ہوں میں
کہ میرے پیروں تلے آ رہے ہیں ماہ و نجوم
یہ کون سمت سفر پر نکل پڑا ہوں میں
میں شاخِ نخلِ شکستہ سہی مگر ذی شان
نجانے کتنے پرندوں کا آسرا ہوں میں

ذی شان مرتضیٰ

Comments