زباں سے نکلے ہوئے لفظ بے صدا نہ کرو

زباں سے نکلے ہوئے لفظ بے صدا نہ کرو
نہ سن رہا ہو کوئی بات جب، کہا نہ کرو
ہر ایک شے پہ ہو نقد و نظر کی تیشہ زنی
شعور اتنا بصیرت سے آشنا نہ کرو
تمام عمر کی کوشش بھی رائیگاں جائے
دراز اتنا مرادوں کا سلسلہ نہ کرو
خود اپنے زخموں سے ہر شخص چُور ملتا ہے
کسی کو اپنے مصائب میں مبتلا نہ کرو
دل اک صحیفۂ ناطق ہے آگہی کے لئے
اس آئینے کو کبھی ہاتھ سے جدا نہ کرو
ادا ادا پہ زمانے کا خوف طاری ہے
اب اس سے ہو ملنا تو یوں مِلا نہ کرو
غبار، برگ و ثمر پر ہے منجمد کتنا
حیاتؔ ایسی فضاؤں کا آسرا نہ کرو

حیات لکھنوی

Comments