سنگ کی طرح سماعت پہ ہنسی لگتی ہے

سنگ کی طرح سماعت پہ ہنسی لگتی ہے
خیر! اب چُپ بھی کہاں مجھ کو بھلی لگتی ہے
وہ حویلی ہوں جو آباد نہیں ہو پاتی
گرچہ ہر سمت ہی سے کوئی گلی لگتی ہے
دوسرے رنگ نظر ہی نہیں آتے مجھ کو
زرد ایسا ہوں کہ ہر چیز ہری لگتی ہے
ایک ہی عمر ہے دونوں کی مگر دیکھنے میں
میری تنہائی ذرا مجھ سے بڑی لگتی ہے
جانے یہ بوجھ ہے کیسا کہ ذرا دم لوں تو
دفعتاَ پیٹھ پہ نادیدہ چھڑی لگتی ہے
اب کُھلا مجھ پہ کہ خود مصرعِ بے وزن ہوں مَیں
اور مجھے دوسرے مصرع میں کمی لگتی ہے
میرے اندر ہیں دراڑیں ہی دراڑیں، شارقؔ
پینٹ ہو جانے سے دیوار  نئی لگتی ہے
سعید شارق

Comments