دھکے دیے ہیں دھوپ نے سائے گلے پڑے

دھکے دیے ہیں دھوپ نے, سائے گلے پڑے
تم ساتھ جب نہیں تھے  تو رستے گلے پڑے
اب ختم ہو چکا ہے بزرگوں کا احترام
دریا کو آ کے آج کنارے گلے پڑے
تم جا چکے تھے اور یہاں پھر تمھارے بعد
اک دوسرے کو چاہنے والے گلے پڑے
کیا اور کوئی شہر میں ملتا نہیں اسے؟
آ آ کے روز عشق ہمارے گلے پڑے
اس مفلسی کے بوجھ نے ہلکا کیا مجھے
میں خالی ہاتھ آیا تو بچے گلے پڑے
اے دوست! اس طرح بھی گزرتی ہے زندگی؟
اِس کے گلے پڑے، کبھی اُس کے گلے پڑے
دل سے تمھارا نام مٹانے کی دیر تھی
پھر اس کے بعد پیڑ پرندے گلے پڑے

حسن ظہیر راجا

Comments