وہ ہنستی آنکھیں حسیں تبسم دمکتا چہرہ کتاب جیسا

وہ ہنستی آنکھیں حسیں تبسم دمکتا چہرہ کتاب جیسا
دراز قامت ہے سرو آسا ہے رنگ کھلتے گلاب جیسا
وہ دھیمے لہجے کے زیر و بم میں پھوار جیسی حسین رم جھم
ہے گفتگو میں بہم تسلسل رواں رواں سا چناب جیسا
کچھ اس کے عارض کی دل فریبی کچھ اس کے ہونٹوں کا رنگ دل کش
وہ سر سے پا ہے غزل کا لہجہ نیا نیا سا شباب جیسا
کبھی وہ تصویر بن کے دیکھے کبھی وہ تحریر بن کے بولے
وہ پل میں گم صم وہ پل میں حیراں کسی مصور کے خواب جیسا
وہ میرے جذبوں کی خوش نصیبی یا اس کی چاہت کی انتہا ہے
کہ اس کی آنکھوں میں عکس میرا نہاں عیاں سا حجاب جیسا
فرشتہ صورت دعا کا سایہ وہ روپ انساں کا دھار آیا
ہے اس سے دوری عذاب مجھ کو ہے اس کا ملنا ثواب جیسا
پلٹ کے دیکھے تو وقت ٹھہرے وہ چل پڑے تو زمانہ حیراں
وہ رشک امبر وہ ماہ کامل وہ کہکشاں وہ شہاب جیسا
کبھی وہ شعر و سخن کا شیدا کبھی وہ تحقیق کا دوانہ
وہ میری غزلوں کا حسن مطلع مرے مقالے کے باب جیسا
پریا تابیتا

Comments