بے عمل کو دنیا میں راحتیں نہیں ملتیں

بے عمل کو دنیا میں، راحتیں نہیں ملتیں
دوستو! دعاؤں سے، جنتیں نہیں ملتیں
اس نئے زمانے کے، آدمی ادھورے ہیں
صورتیں تو ملتی ہیں، سیرتیں نہیں ملتیں

اپنے بل پہ لڑتی ہے، اپنی جنگ ہر پیڑھی
نام سے بزرگوں کے، عظمتیں نہیں ملتیں
جو پرندے آندھی کا سامنا نہیں کرتے
ان کو آسمانوں کی "رفعتیں" نہیں ملتیں
اس چمن میں گل بوٹے خون سے نہاتے ہیں
سب کو ہی گلابوں کی قسمتیں نہیں ملتیں
آج کل وہی افسر، کوستے ہیں قسمت کو
جن کو اونچے عہدوں پر، رشوتیں نہیں ملتیں
شہرتوں پہ اترا کر، خود کو جو خدا سمجھیں
منظر ایسے لوگوں کی، تُربتیں نہیں ملتیں

منظر بھوپالی

Comments