نہ سماعتوں میں تپش گھلے نہ نظر کو وقف عذاب کر

نہ سماعتوں میں تپش گُھلے نہ نظر کو وقفِ عذاب کر​
جو سنائی دے اُسے چپ سِکھا جو دکھائی دے اُسے خواب کر​

ابھی منتشر نہ ہو اجنبی، نہ وصال رُت کے کرم جَتا!​
جو تری تلاش میں گُم ہوئے کبھی اُن دنوں کا حساب کر​

مرے صبر پر کوئی اجر کیا مری دو پہر پہ یہ ابر کیوں؟​
مجھے اوڑھنے دے اذیتیں مری عادتیں نہ خراب کر​

کہیں آبلوں کے بھنور بجیں کہیں دھوپ روپ بدن سجیں​
کبھی دل کو تِھل کا مزاج دے کبھی چشمِ تِر کو چناب کر​

یہ ہُجومِ شہرِ ستمگراں نہ سُنے گا تیری صدا کبھی،​
مری حسرتوں کو سُخن سُنا مری خواہشوں سے خطاب کر​

یہ جُلوسِ فصلِ بہار ہے تہی دست، یار، سجا اِسے​
کوئی اشک پھر سے شرر بنا کوئی زخم پھر سے گلاب کر

محسن نقوی

Comments