دل میں رہتا ہے کوئی دل ہی کی خاطِر خاموش

دل میں رہتا ہے کوئی، دل ہی کی خاطِر خاموش
جیسے تصویر میں بیٹھا ہو مصوّر خاموش

دل کی خاموشی سے گھبرا کے ُاٹھاتا ہوں نظر
ایک آواز سی آتی ہے، مسافر! خاموش

اِس تعارف کا نہ آغاز، نہ انجام کوئی
کر دیا ایک خموشی نے مجھے پھر خاموش

کچھ نہ سُن کر بھی تو کہنا ہے کہ ہاں، سنتے ہیں
کچھ نہ کہہ کر بھی تو ہونا ہے بالآخِر خاموش

ڈوب سکتی ہے یہ کشتی تری سرگوشی سے
اے مرے خواب، مرے حامی و ناصر، خاموش

چیونٹیاں رینگ رہی ہیں کہیں اندر عادلؔ
ہم ہیں دیوار کے مانند، بظاہر خاموش

ذوالفقار عادل

Comments