نکالنے کو وہی روز و شب دفینے سے

نکالنے کو، وہی روز و شب، دفینے سے
اُتر رہا ہوں دبے پاؤں زینے زینے  سے
خبر نہ تھی کہ جُھکا دے گا میرے شانوں کو
جو بوجھ گھٹتا چلا جا رہا تھا سینے  سے
سمندروں پہ مری حکمرانی چلتی تھی
پھر ایک جل پری ٹکرا گئی سفینے  سے
نہ ہاتھ رکھنے سے کاغذ خموش ہو پایا
نہ شور گھٹ سکا لفظوں کے ہونٹ سینے سے
مجھے تو کیا مری آنکھوں کو بھی خبر نہ ہوئی
بکھر رہا تھا مرا خواب کس قرینے  سے
میں تیری یاد بھی دل سے نکالتا لیکن
لپٹ چُکا ہے کوئی اژدھا خزینے  سے
سعید شارق

Comments