تو طے ہوا نا کہ جب بھی لکھنا رتوں کے سارے عذاب لکھنا

تو طے ہوا نا کہ جب بھی لکھنا رتوں کے سارے عذاب لکھنا
اجاڑ موسم میں تپتے صحرا کو آب لکھنا حباب لکھنا
قرار جاں ہے تمہارا وعدہ کہ گھر پہنچ کر میں بھیج دوں گی
میں منتظر ہوں تمہارے خط کا شکایتوں کا جواب لکھنا
مجھے یقیں ہے نصیب میرا نہ ساتھ دے گا کہ تجربہ ہے
سکون کو اضطراب کہنا حقیقتوں کو سراب لکھنا
یہ تیری غزلیں بیاں نہیں ہیں وصال شب کی نوازشوں کا
جو ہو سکے مثنوی میں سارا وہ عکس کیف شباب لکھنا
اذیتوں کے سفر میں میں نے بھرم رکھا پھر بھی حوصلوں کا
منافقت کے جہاں میں مجھ کو صداقتوں کا نصاب لکھنا
یہ دور اہل قلم پہ بھاری کہ مصلحت کی سبیل جاری
گناہ کو بھی ثواب کہنا ببول کو بھی گلاب لکھنا
ہوا کے ماتھے پہ درج تحریر موسموں کی تمازتوں سے
جو مٹ گئی ہے تو کیا ہوا ہے نئے سرے سے یہ باب لکھنا
گلاب رت میں یہ زردیوں کے نقوش چہرے پہ دیکھ لینا
ہمارے بارے میں کچھ نہ کہنا پہ عبرتوں کی کتاب لکھنا
ہری بھری کھیتیاں کہاں ہیں مرے مقدر کے زائچے ہیں
شہید عشق وفا کا طاہرؔ ہتھیلیوں پر حساب لکھنا
طاہر تونسوی

Comments