گرد کوزوں سے ہٹانے کے لیے آتا ہے

گرد کوزوں سے ہٹانے کے لیے آتا ہے
کوزہ گر، شکل دکھانے کے لیے آتا ہے

اشک اِس دشت میں،اِس آنکھ کی ویرانی میں
اِک محبت کو بچانے کے لیے آتا ہے

یوں ترا خواب ہٹا دیتا ہے سارے پردے
جس طرح کوئی جگانے کے لیے آتا ہے

روز اِس کاٹھ کی چھت پر سے گزرتا ہے پرند
جانے کیا یاد دِلانے کے لیے آتا ہے

ایک کردار کی امّید میں بیٹھے ہیں یہ لوگ
جو کہانی میں ہنسانے کے لیے آتا ہے

ایک کتبے پہ لکھا ہے کہ ذرا ٹھہرو تو
یاں تو ہر شخص ہی جانے کے لیے آتا ہے

دِل کی سرحد پہ کھڑا دیکھ رہا ہوں عادلؔ
کب کوئی ہاتھ ملانے کے لیے آتا ہے
ذوالفقار عادل

Comments