منکشف جب سے ہوا مجھ پر کہ دنیا خواب ہے

منکشف جب سے ہوا مجھ پر کہ دنیا خواب ہے
میں نے ہر اک بات کو سمجھا کہ گویا خواب ہے
یہ مرے بھائ مرے دشمن نہ ہو جائیں کہیں
میں سناتا ہی نہیں ان کو اک ایسا خواب ہے
اس محبت کا اثاثہ دامن ِ صد تار میں
ایک دز دیدہ نگاہی ، ایک آدھا خواب ہے
وہم کی بنیاد پر ہے یہ یقیں کا منطقہ
سب صدائیں بے صدا ہیں ، ہر زمانہ خواب ہے
آنکھ بھر دیکھا اسے اور نیند بھر چاہا اسے
عمر بھر کا سانحہ تھا رات بھر کا خواب ہے
یہ جمال چشم و لب ، یہ مر مریں ہاتھوں کا لمس
یہ تو میرے سامنے بیٹھا ہے، یہ کیا خواب ہے
اس سے پہلے بھی میں شاید آچکا ہوں اس جگہ
دیکھی دیکھی صورتیں ہیں دیکھا دیکھا خواب ہے
یہ محبت جس کی خاطر عمر گزری ہے تمام
نا مکمل نیند ہے اشرف ادھورا خواب ہے
اشرف یوسفی

Comments