جنگل ہماری آنکھ برابر نہیں رہے

جنگل ، ہماری آنکھ برابر نہیں رہے
حلیے بگڑ چکے ہیں مگر ڈر نہیں رہے
پاپوش! نرم چرم کی پاپوش ٹھیر جا
سوجن چڑھی ہوئی ہے کوئی مر نہیں رہے
کڑوے کنویں! چھلکتی ہوئی چھاگلوں چھلک
یونہی ہم آنسوؤں سے تجھے بھر نہیں رہے
تلوؤں کی آگ سر میں بھڑکنے سے ڈر گئی
دیوار بچ گئی ہے مگر در نہیں رہے
دو ہاتھ، سرخ گال، گلابوں بھرا وہ تھال
کچھ خدوخال تھے بھی تو ازبر نہیں رہے
شاید کسی دعا سے سخن کی گرہ کھلی
وہ یوں کہ عشق وشق تو ہم کر نہیں رہے
۔۔۔۔۔۔۔
علی زیرک

Comments