دل جو تیشہ زنی پہ مائل ہے

دل جو تیشہ زنی پہ مائل ہے
کچھ نہ کچھ راستے میں حائل ہے

تو جو حیرت زدہ نہیں ہوتا
تو مری گفتگو کا قائل ہے

میں مسافر ھوں کہنہ رسموں کی
میرے آگے رہِ قبائل ہے

کیا سناوں میں حالِ دل کہ یہ دل
تیری کج فہمیوں سے گھائل ہے

رقص کرتا ہے حرف حرف مرا
میرے لہجے میں کون پائل ہے

میرے پیروں کو ڈسنے والا سانپ
میری گردن میں کیوں حمائل ہے
بلقیس خان

Comments