شوق سے اس کی گلی میں جاؤ تو

شوق سے اُس کی گلی میں جاؤ تو
حضرتِ دل! ہو گیا پتھراؤ ”تو“
حُرمتِ مَے بے پیۓ سمجھاؤ تو 
شیخ صاحب! میکدے میں آؤ تو
ڈھونڈنی ہے اپنی قسمت کی لکیر
ہم بھی دیکھیں، ہاتھ اِدھر تم لاؤ تو



 دو گھڑی کی بات ہے، تکرار کیا 
دو گھڑی کو تم مِرے گھر آؤ تو
ہو ہی جائیں گے وہ آخر مہرباں 
باتوں باتوں میں اُنہیں بہلاؤ تو
دشت کے کانٹو! لہو پینا، مگر
کچھ دنوں تلوے مِرے سہلاؤ تو
پھر چلا لینا نظر کے تیر تم 
دل کے بھر لینے دو پہلے گھاؤ تو
شوخیوں سے، ناز سے، انداز سے
ہم بہک جائیں گے تم، بہکاؤ تو
گفتگو میں پیار کے دو بول تھے 
پھر وہی فقرہ ذرا دہراؤ تو
چل نہ دیں دیوارِ زنداں توڑ کر 
وحشیوں کو بیڑیاں پہناؤ تو
میری قسمت کے نکل جائیں گے بَل 
اپنی زُلفوں کو زرا سُلجھاؤ تو
جا رہا ہے وہ جنازہ عشق کا
مار ڈالا ہے جسے، دفناؤ تو
تا بکے اُس کی توجّہ کی طلب 
نا مناسب ہی رہا برتاؤ ”تو“
جا رہا ہُوں مَیں نصیرؔ اُن کی طرف 
درمیاں میں پڑ گئے اُلجھاؤ ”تو“
پیر نصیر الدین نصیر گیلانی

Comments